حرفِ آغاز

حقیتِ تصوف

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

حقیقتِ تصوف

          احسان یا بہ الفاظِ متعارف ”تصوف“ کیاہے؟ انسانی روح کا اپنے مطلوبِ حقیقی سے ملنے کا شدید اشتیاق؟ تصوف کیاہے؟ اخلاق کی جان اور ایمان کا کمال، شریعت اسلامی اس کی اساس اور قرآن و حدیث اس کا سرچشمہ؛ چناں چہ سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی کا بڑے واضح الفاظ میں اعلان ہے کہ:

”ایں راہ کسےیابد کہ کتاب بردست راست گرفتہ باشد وسنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بردست چپ و در روشنائی ایں دوشمع می رود تانہ در مغاک شبہت افتد نہ درظلمت ِبدعت۔“

اس راہ کو وہی پاسکتا ہے جو کتاب اللہ کو داہنے ہاتھ میں اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں ہاتھ میں لیے ہواور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہِ سلوک طے کرے؛ تاکہ گمراہی اور بدعت کی تاریکی میں نہ گرے۔

          حضرت سہل بن عبداللہ تستری جو متقدمین صوفیاء میں امتیازی مقام و مرتبہ کے حامل تھے فرماتے ہیں: أصُوْلُنَا سَبْعَةُ أشْیَاءَ: التَّمَسُّکُ بِکِتَابِ اللہِ وَالاقْتِدَاءُ بِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأکْلُ الْحَلاَلِ وَکَفُّ الأذیٰ وَاجْتِنَابُ الْمَعَاصِی وَالتَّوْبَةُ وَأدَاءُ الْحُقُوْقِ (التاج المکلل) ہمارے سات اصول ہیں: کتاب اللہ پر مکمل عمل، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دینا، گناہوں سے بچنا، توبہ واستغفار، اور حقوق کی ادائیگی۔

          سلطان الہند شیخ معین الدین اجمیری کا یہ مقولہ تاریخِ اجمیر میں درج ہے:

”اے لوگو تم میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ترک کرے گا، وہ شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم رہے گا۔“

          حضرت میر سید اشرف سمنانی مدفون کچھوچھا ضلع فیض آباد فرماتے ہیں:

”یکے از ہم شرائطِ ولی است کہ: تابعِ رسول علیہ السلام قولاً وفعلاً واعتقاداً بود (لطائف اشرفی)

ولی کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے قول، فعل اور اعتقاد میں پیروہو۔“

          تصوف دراصل وہ رہنما ہے جو سالک کو ہر آن باخبر رکھتا ہے کہ دیکھنا کہیں مقصود نگاہ سے اوجھل نہ ہوجائے، وہ ہدایت کرتا ہے کہ جب تو بارگاہِ خداوندی میں نماز کے لیے کھڑا ہو اور یہ دیکھے کہ قبلہ رو ہے یا نہیں، جائے نماز اورکپڑے پاک ہیں یا نہیں، تو اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھ کہ تیرا تصور پاک ہے یا نہیں، دل مالکِ کائنات کی طرف ہے یا نہیں، غرض تصوف ہر ہر قدم پر سالک کو خبردار رکھتا ہے کہ مقصودِ اصلی خدائے ذوالجلال والاکرام کے خیال سے دل غافل نہ ہونے پائے، ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل کے تلامذہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ بِشر حانی کے پاس کیوں جاتے ہیں وہ تو عالم ومحدث نہیں ہیں؟ توامام صاحب نے فرمایا کہ میں کتاب اللہ سے واقف ہوں؛ مگر بِشر اللہ سے واقف ہیں۔ عارف ہندی اکبرالہ آبادی مرحوم نے بہت خوب کہا ہے۔

قرآن رہے پیش نظر ، یہ ہے شریعت

اللہ رہے پیش نظر ، یہ ہے طریقت

          اس حقیقت کویوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ فقیہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ، اے بندے اللہ کا نام لے، اور صوفی بھی یہی کہتا ہے کہ اللہ کا نام لے؛ مگر اس طرح کہ وہ تیرے دل میں اتر جائے، یعنی صوفی کا کہنا یہ ہے کہ صرف زبان سے اللہ کا نام لینا کافی نہیں ہے، زبان کے ساتھ تیرا دل بھی ذاکر ہونا چاہیے؛ حاصلِ کلام یہ نکلا کہ تصوف یا احسان دل کی نگہبانی کا اصطلاحی نام ہے، حدیث جبرئیل میں ”اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأنَّکَ تَرَاہُ فَانْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَانَّہ یَرَاکَ“ کا جملہ اسی دل کی نگہبانی کی انتہائی بلیغ اور پیغمبرانہ تعبیر ہے،امام العرفاء سیدُ الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر جملے سے احسان یا تصوف کی پوری حقیقت بیان فرمادی ہے؛ کیوں کہ راہِ تصوف کے تمام جہد و عمل، ذکر وفکر، محاسبہ و مراقبہ وغیرہ کا منشاء و مقصد یہی ہے کہ دل مشاہدہ و حضور کی متاعِ عزیز سے ہم کنار ہوجائے۔

          تصوف کی مستند کتابوں مثلاً قوتُ القلوب از شیخ ابوطالب مکی، طبقات الصوفیہ از شیخ عبدالرحمن سلمی، حُلیةُ الأولیا از ابو نعیم اصفہانی، الرسالة القُشَیریة از امام قشیری کشف المحجوب ازشیخ علی بن عثمان ہجویری مدفون لاہور، تذکرة الاولیاء از شیخ فرید الدین عطار، عوارف المعارف از شیخ سہروردی، فوائد الفواد ملفوظات شیخ نظام الدین اولیاء، خیرالمجالس ملفوظات شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی وغیرہ کے صفحے کے صفحے الٹ جائیے صرف زبانی ہی نہیں؛ بلکہ عملاً بھی کتاب و سنت کی تلقین ملے گی،اور معتمد طور پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اکابر صوفیاء کے مجاہدات، ریاضات اور مراقبات کی اساس و بنیاد قرآن وحدیث کی تعلیمات ہی ہیں، اور ان کی پاکیزہ زندگیاں اسلام کی جیتی جاگتی تصویریں تھیں۔

          اسلامی تعلیمات میں محبتِ الٰہی، مکارمِ اخلاق اور خدمتِ خلق کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے، تصوف کی تعلیمات بھی انھیں ارکانِ ثلثہ پر مبنی ہیں، تاریخی شواہد کی بنیادپر بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حضرات صوفیاء ہی نے اپنی عملی جدوجہد کے ذریعہ ہر زمانے میں اسلام کے اخلاقی و روحانی نظام کو زندہ رکھا، صوفیاء سے بڑھ کر تبلیغ اور تعمیرِ سیرت کا فریضہ کسی جماعت نے انجام نہیں دیا، متکلمین، معتزلہ اور حکماء نے صرف دماغ کی آبیاری کی جب کہ صوفیاء نے دماغ کے ساتھ دل کی تربیت اوراصلاح کی اہم ترین خدمت بھی انجام دی اوریہ بات کسی بیان و تشریح کی محتاج نہیں ہے کہ اسلام میں اصلی چیز دل ہے، نہ کہ دماغ؛ اگر دل فاسد ہوجائے تو دماغ کا فاسد ہوجانا یقینی ہے، چناں چہ نبیِ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ألاَ انَّ فِی الجَسَدِ مُضْغَةٌ اذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الجَسَدُ کُلُّہ وَاذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہ ألاَ وَھِیَ الْقَلْبُ“ انسان کے جسم میں ایک عضو ہے اگر وہ صالح ہوجائے تو سارا جسم صالح ہوجائے اوراگر وہ فاسد ہوجائے تو سارا جسم فاسد ہوجائے، آگاہ ہوجاؤ: وہ قلب ہے۔

          حضرات علمائے کرام نے علمی و نظری دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا جب کہ حضرات صوفیاء نے اپنے اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار سے اسلام کی صداقت کو مبرہن اور آشکارا کیا، اس لیے تصوف یا طریقت شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے؛ بلکہ صحیح معنوں میں تصوف اسلام کا عطر اور اس کی روح ہے؛ لیکن کوئی انسانی تحریک خواہ وہ کتنی اچھی کیوں نہ ہو جب افراط و تفریط، عمل و رد عمل کا بازیچہ بنتی ہے تواس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی؛ چنانچہ متکلمین نے اسلام کو یونانی فلسفہ کی زد سے بچانے میں بڑی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہیں؛ لیکن آگے چل کر جب علم کلام کو شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بنالیا گیا تو یہی علم کلام مسلمانوں میں ذہنی انتشار برپا کرنے کا سبب بن گیا، یہی حال تصوف کا بھی ہوا کہ تصوف کی ہمہ گیر مقبولیت اور ہر دلعزیزی دیکھ کر جاہل یا نقلی ارباب غرض، صوفیوں کے بھیس میں اس جماعتِ صوفیہ صافیہ میں درآئے اور اپنی مقصد برآری کے لیے شریعت و طریقت میں تفریق کا نظریہ شائع کردیا، مجاز پرستی، قبرپرستی، نغمہ و سرود کو روحانی ترقی کا لازمی جزو بنادیا اور دنیاپرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دے دی مگر ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ محققین صوفیا نے ہمیشہ ان گمراہیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے، اور ان فاسد عناصر کو تصوف سے خارج کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔

          اس جعلی اور غیر اسلامی تصوف کی بنا پر سرے ہی سے تصوف کا انکار کردیا جائے اوراسے نوع انسانی کے لیے بمنزلہٴ افیون بتایاجائے اورالزام عائد کیا جائے کہ تصوف زندگی کے حقائق سے گریز کی تعلیم دیتا ہے اوراس نے مسلمانوں کے قوائے عمل کو مضمحل یا مردہ بنادیا ہے تو یہ سراسر ناانصافی اور اسلامی تصوف پر ظلم ہوگا۔

          بدقسمتی سے خود مسلمانوں کا ایک طبقہ جو براہ راست اسلام اوراسلامی مآثر کا مطالعہ کرنے کی بجائے مستشرقین اور عیسائی مصنّفین کے واسطہ اورانھیں کی مستعار عینک سے اسلامی علوم و معارف کو دیکھنے کا عادی ہے، اسلامی تصوف پر اسی قسم کے بیجا اور غلط اعتراضات کرتا رہتا ہے، یہ بات حق و صداقت اورانصاف و عدالت سے کس قدر بعید ہے کہ ہدفِ ملامت تو بنایا جائے اسلامی تصوف کو اور قبائح مدنظر رکھی جائیں غیراسلامی تصوف کی، اسلام کے ان نادان دوستوں نے اپنے اس رویہ سے نہ صرف علم و تحقیق کا خون کیا؛ بلکہ لاکھوں بندگانِ خدا کو تصوف کی حسنات و برکات سے محروم کردیا۔ فَالیَ اللہِ المُشْتَکیٰ

***

---------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء